Wednesday, September 17, 2025

بارہ بیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے

 حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں:

جمہور کے قول کے موافق بارہ ربیع الاول تاریخ ولادت شریفہ ہے۔ (ارشاد العباد فی عید المیلاد، ص۵)

ملفوظ متعلق محفل میلاد

فرمایاکہ اس کے متعلق پہلے میرا یہ خیال تھا کہ اس محفل کا اصل کام ذکر رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم تو سب کے نزدیک خیروسعادت اور مستحب ہی ہے۔ البتہ اس میں جومنکرات اورغلط رسمیں شامل کردی گئی ہیں ان کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے۔ اصل امرمحفل مستحب کوترک نہیں کرنا چاہیے اور یہ دراصل ہمارے حضرت حاجی (امداداللّٰہ مہاجرمکی) صاحب قدس سرہ کا مسلک تھا۔حضرت کی غایت شفقت وعنایت اورمحبت کے سبب میرا بھی ذوق یہی تھا۔اوریہی عام طورپرصوفیائے کرام کامسلک ہے۔حضرت مولانا رومی بھی اسی کے قائل ہیں۔انھوں نے فرمایا

بہرکیکے توگلیمے رامسوز

لیکن ہمارے فقہائے حنفیہ کامسلک ان معاملات میں یہ ہے کہ جومباح یامستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہواس کے ساتھ تویہی معاملہ کرنا چاہیے کہ اگر اس میں کچھ منکرات شامل ہوجائیں تومنکرات کے ازالہ کی فکر کی جائے، اصل کام کو نہ چھوڑا جائے۔مثلاً مسجدوں کی جماعت میں کچھ منکرات شامل ہوجائیں تو اس کی وجہ سے جماعت چھوڑدینا جائزنہیں ہوگا منکرات کے ازالہ کی کوشش مقدوربھر واجب ہوگی، اسی طرح اذان ، تعلیم قرآن وغیرہ کا معاملہ ہے کہ وہ مقاصد شرعیہ میں سے ہیں، اگر ان میں کچھ منکرات شامل ہوجاویں توازالہ منکرات کی کوشش کی جاوے گی، اصل کام کو نہ چھوڑا جائے گا۔لیکن جو مستحبات ایسے ہیں کہ اصل مقاصد شرعیہ ان پرموقوف نہیں، اگر ان میں کچھ منکرات وبدعات شامل ہوجاویں تو ایسے مستحبات ہی کوترک کردینا چاہیے مثلاً زیارت قبور، ذکررسول کے لیے محفل ومجلس کا انعقاد کہ اس پرکوئی مقصدشرعی موقوف نہیں۔وہ بغیراس مجلس اور خاص صورت کے بھی پورے ہوسکتے ہیں اگر ان میں منکرات وبدعات شامل ہوجاویں تو یہاں ایسی مجالس اور ایسے اجتماعات ہی کو ترک کردینا لازم ہوجاتاہے۔احادیث اور آثار صحابہ اوراقوال ائمہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جن کو علامہ شاطبی نے کتاب الاعتصام میں جمع فرمادیا ہے۔

جس درخت کے نیچے رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا بیعت لینا اس پراللّٰہ تعالیٰ کی رضا قرآن میں مذکورہے، جب اس کے نیچے لوگوں کااجتماع اوربعض منکرات کا خطرہ حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ نے محسوس فرمایا تو اس درخت ہی کو کٹودیا حالانکہ اس کے نیچے جمع ہونے والے حضرات صحابہ کوئی ناجائز کام نہ کرتے تھے۔ محض تبرکاً جمع ہوتے اور ذکر اللّٰہ وذکر رسول ہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ ایسااجتماع مقصودشرعی نہیں تھا اور آئندہ اس میں شرک وبدعت کا خطرہ تھا اس لیے اس اجتماع ہی کو ختم کردیا گیا۔ اس طرح کے اور بھی متعدد واقعات حضرت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ اور دوسرے حضرات صحابہ سے بکثرت منقول ہیں۔ کتاب الاعتصام میں وہ مستندکتابوں کے حوالے سے نقل کیے گئے ہیں۔ ان احادیث وآثار کی بنا پرفقہائے حنفیہ کامسلک ایسے معاملات میں یہی ہے کہ جوامر اپنی ذات میں مستحب ہومگر مقصود شرعی نہ ہو، اگر اس میں منکرات وبدعات شامل ہوجائیں یاشامل ہونے کا خطرہ قوی ہوتو ایسے مستحبات کوسرے سے ترک کردیا جائے۔ لیکن جوامر مستحب مقاصد شرعیہ میں سے ہویا اس پرکوئی مقصدشرعی موقوف ہوتو اس کو شمول منکرات کی وجہ سے ترک نہ کیاجائے بلکہ ازالہ منکرات کی کوشش کرنا چاہیے۔

حضرت (مولانا رشیداحمد)گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ اسی مسلک حنفی کے پابند تھے، اس لیے مروجہ محفل میلاد جو بہت سے منکرات وبدعات پرمشتمل ہوگئی ہے اس میں شرکت کی جازت نہیں دیتے تھے۔ کچھ زمانے تک اس مسئلہ میں حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بھی میرا اختلاف رہا، مگر بالآخردلائل کی قوت اور دین کی حفاظت کے پیش نظر یہی مسلک احوط اوراسلم نظر آیا اسی کواختیار کرلیا لیکن جومسلک صوفیائے کرام نے اختیار فرمایا ہے میں اس کو بھی بے اصل نہیں جانتا۔ فقہائے مجتہدین سے حضرات شافعیہ کابھی یہی مسلک ہے۔ علامہ شامی نے مصافحہ بعد الصلوٰۃ کے مسئلہ میں شیخ محی الدین نووی شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کایہی مسلک نقل کیاہے۔اس لیے جوصوفیائے کرام محفل میلاد خالی از منکرات پرعامل ہیں ان پربھی اعتراض اوربدگمانی نہیں کرنا چاہیے۔(مجالس حکیم الامت، ص۱۶۰)

(اس ملفوظ میں سب حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے الفاظ نہیں، شرح وتوضیح حضرت مفتی محمدشفیع عثمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ مرتب ملفوظات کی طرف سے شامل ہے)



No comments:

Post a Comment